- کرشن چندر
- احمد ندیم قاسمی
- پریم چند
- عصمت چغتائی
- c
-
نرملا منشی پریم چند کا مشہور ناول ہے۔
اس ناول میں ایک سماجی کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔
لفظ ‘پہناوا’ قواعد کی رُو سے کیا ہے؟
- اسم جامد
- اسم مصدر
- فعل متعدی
- اسم حاصل مصدر
- d
-
اسم حاصل مصدر ایسا اسم ہے جو خود تو کسی اسم سے نہ بنا ہو لیکن اِس سے کئی اسم بن سکیں۔
اسم مصدر کی پہچان یہ ہے کہ اِ س کے آخر میں ‘نا’ آتا ہےمثلا پڑھنا، سونا، جاگناوغیرہ
لفظ ‘باوفا’ قواعد کی رُو سے کیا ہے؟
- مرکب تام
- مرکب توصیفی
- مرکب لاحقی
- اضافت
- b
علی اور اسلم، ‘لیل و نہار، شب و روز، قواعد کی رُو سے کیا ہیں؟
- مرکب ناقص
- مرکب تام
- مرکب توصیفی
- مترادف مرکب
- b
-
دو یا دو سے زیادہ بامعنی الفاظ کا ایسا مجموعہ جس سے کہنے والے کا مقصد پورا ہو جائے اور بات مکمل طور پر سننے والی کی سمجھ میں آجائے۔مرکب تام کہلاتا ہے۔
مرکب تام کو مرکب کلام بھی کہا جاتا ہے۔
اردو حروف تہجی کی تعداد کیا ہے؟
- 36
- 37
- 38
- 39
- d
-
اردو زبان ہلکے اور بھاری آوازوں والے حروف پر مشتمل ہے۔
اردو زبان میں کُل حروف کی تعداد 54 ہے۔
اِ ن چون حروف میں 39 ہلکی آوازوں والے حروف ہیں جبکہ 15 بھاری آوازوں والے حروف ہیں ۔
ہلکی آوازوں میں ا، ب پ، ت وغیرہ ایسے الفاظ شامل ہیں ۔
بھاری آوازوں میں بھ، پھ، ٹھ، دھ وغیرہ جیسے الفاظ شامل ہیں۔
میر مہدی کو ‘میرن’ اکبر کو ‘حاجی’ کہنا وقواعد کی رُو سے کیا کہلاتا ہے؟
- خطاب
- عرفیت
- لقب
- اسم ذات
- b
‘ لاؤ تو قتل نامہ مرا’ کس مجموعہ میں شامل ہے؟
- دست تہ سنگ
- سر وادی سینا
- نقش فریادی
- مرے دل مرے مسافر
- d
-
‘لاؤ تو قتل نامہ مرا’ یہ نظم فیض احمد فیض نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت پر لکھی۔
یہ مصرعہ میر محبوب علی خان آصف کا ہے ۔
فیض احمد فیض نے یہ شعر اپنے شعری مجموعہ میں واوین میں درج کیا ہے۔
پریم چند کا اصل نام کیا تھا؟
- دولت رائے
- دسرت رائے
- دھنپت رائے
- گُپت رائے
- c
-
مُنشی پریم چند اُردو کے مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار تھے۔
آپ کا اصل نام دھنپت رائے سری واستو تھا۔
آپ 1880 میں پیدا ہُوئے اور 1936 میں وفات پائی۔
لفظ ‘اُمت’ کی جمع کیا ہے؟
- اُمات
- اُمہات
- اُمم
- اُمائم
- c
-
اُمت عربی زبان کا لفظ ہے۔
اُُمت اور قوم مترادف الفاظ ہیں۔
درج ذیل مصرع کس شاعر کا ہے؟ ‘خطا کس کی ہے یارب ! لامکاں تیرا ہے یا تیرا’
- آتش
- مومن
- اقبال
- میر
- c
-
مذکورہ بالا مصرعہ علامہ محمد اقبال کی تصنیف بالِ جبریل سے لیا گیا ہے۔